Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

بدلتی قسمت از مہمل نور قسط نمبر15

ایمن کے کپڑے چینج کرتے ہی ہانیہ کی نظر دروازے سے داخل ہوتی سجل پر پڑی۔۔۔جو اسکی طرف ہی آرہی تھی ...ہانیہ فوراً اسکی طرف لپکی۔۔۔۔اور دونو بہنیں ایک دوسرے کے گلے لگتے ہی زاروقطار رونا شروع ہونگی۔۔۔ کچھ دیر بعد سجل نے خود کو سمبھالا اور ہانیہ کو خود سے دور کیا۔۔۔اور اسے کندھو سے پکڑ کر بیڈ پے بیٹھایا۔۔۔ کیا حال کر لیا ہے آپ نے اپنا۔۔۔سجل دکھ سے بولی۔۔۔ تمہیں میں یاد تھی مجھے لگا تمہیں اپنی بہن بھول گئی ہے۔۔۔ہانیہ ابھی بھی رو رہی تھی۔۔۔ آپ ایسا کیسے سوچ سکتی ہیں آپی۔۔۔میں نے کئی بار چچی کو فون کیا۔۔پر وہ ہر بار کہتی کہ آپ اپنے کمرے میں سو رہی ہیں۔۔۔کبھی آپ باہر گئی ہیں۔۔۔میں کل رات ہی دبئی سے واپس آئی ہوں۔۔۔دوپہر کو حسن کی فیملی سے ملے گئے تھے اور اب آپ سے ملنے آئی ہوں۔۔۔آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے کے میں آپ کو بھول جاؤنگی۔۔۔امی ابو کے بعد آپ اور ثمر ہی تو میرے اپنے ہیں۔۔۔بھلا آپ لوگو کو بھول سکتی ہوں میں۔۔۔ شاید تم تب بھی فون کرتی ہو جب میں بزی ہوتی تھی۔۔۔ اسلیے چچی یہ کہتی ہو۔۔۔اب ہانیہ اسے حقیقت بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں۔۔۔ عماد بھائی نے آپ کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔انھیں آپ کو طلاق نہیں دینی چاہیے تھی۔۔۔کاش میرے ولیمہ نہ ہوتا اور نہ ہی امی ابو کا ایکسیڈنٹ ہوتا۔اور نہ وہ ہمیں چھوڑ کر جاتے۔۔۔سجل کی بھی آنکھیں پھر سے بھیگ گئی تھیں۔۔۔ ایسا مت کہو سجل ۔۔۔انکی موت ایکسیڈنٹ کی وجہ سے لکھی تھی۔۔۔دیکھو چچا چچی بھی تو ان کے ساتھ تھے پر اللہ‎ کو ہمارے امی ابو چاہیے تھے اسلیے وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔ آپی جو بھی ہوا پر اس میں ہم تو یتیم ہوگئے۔۔۔ اچھا چلو یہ باتیں چھوڑو۔۔۔تم تو حسن کے ساتھ خوش ہونہ۔۔۔؟؟ہانیہ نے بات کا رخ مڑا۔۔ جی آپی میں بہت خوش ہوں۔۔۔حسن بہت اچھے ہیں۔۔۔اور اب تو اللہ‎ نے میری بھی سن لی ہے۔۔۔سجل مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔ سجل کی بات پر ہانیہ نے اسے پھر سے گلے لگایا۔۔۔بہت بہت مبارک ہو۔۔۔اللہ‎ تمہیں چاند سہ بیٹا عطا کریے۔۔۔میری دل سے دعاہے۔۔۔اسے ڈر تھا کہی حسن بھی عماد کی طرح بیٹی ہونے پر اسکی بہن کو نہ چھوڑ دے۔۔۔ ارے آپی دعاکریں بیٹی ہو۔۔۔حسن کو بیٹیاں بہت پسند ہے اور وہ چاہتے ہیں ان کے گھر بیٹی ہو۔۔۔ ارے ماشاءالله یہ بہت اچھی بات ہے۔۔۔ اس پہلے وہ کوئی جواب دیتی۔۔اسکی نظر کھلتی ہوئی ایمان پر پڑی۔۔۔جو ٹوٹے ہوئے ایک دو کھلونو سے کھیل رہی تھی۔۔۔پھٹے ہوۓ کپڑے۔۔جسے جگہ جگہ پر ٹانکے لگے ہوئے تھے۔۔سجل فوراً اٹھ کر اسکے قریب آئی اور اسے گود میں لیا۔۔۔ آپی آپ نے اسے کیسے کپڑے پہنائیں ہیں۔۔۔؟؟کیا اس کے پاس کپڑے نہیں ہیں۔۔؟؟سجل نے سوالیہ نظرو سے بہن کو دیکھا۔۔۔ اسکے سوال پر ہانیہ نے نظریں جھکا لی۔۔۔ سجل اسکے سر جھکانے کا مطلب سمجھ گئی تھی۔۔۔اور دوبارہ ایمان کو گود سے اتار کر ہانیہ کے پاس آگئی۔۔۔ آپی چچی آپ کو خرچہ نہیں دیتی۔۔۔؟؟سجل نے اسکے اترے چہرے کو دیکھا۔۔۔ تم بیٹھو میں تمہارے لیے کھانے کے لیے کچھ لاتی ہوں۔۔۔چچی بھی پتا نہیں کہا گئی ہیں۔۔۔کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ اس سے پہلے ہانیہ جاتی سجل اسکا ہاتھ تھام کر واپس بیٹھا لیا۔۔۔ مجھے کچھ نہیں کھانا۔۔۔کیوں کر رہی ہیں آپ اپنے ساتھ ایسا۔۔۔؟؟اور اپنے ساتھ ساتھ اپنی بچیوں کو بھی چچا چچی کا محتاج کر دیا ہے۔۔۔؟؟ تو کیا کروں بتاؤ ۔۔۔؟؟ان کے باپ نے مجھے چھوڑ دیا۔ان دونو کو لے کر کہا جاؤں۔۔؟؟کون رکھے گا انہیں۔۔۔؟؟اب کی بار ہانیہ پھٹ پڑی تھی۔۔۔ واہ آپی۔۔خود آپ چچاچچی کی محتاج بن گئیں ہیں۔۔تو کیا ساری زندگی اپنی اولاد کو بھی رکھیں گی۔۔۔۔آپ کو لگ رہا ہے نہ کے آپ ساری زندگی اپنی بیٹیوں کے لیے گزار دیں گی۔۔۔اور کل کو یہ کہیں گی ہماری ماں نے ہمارے لئے قربانی دی۔۔۔پر ایسا نہیں ہے آپی۔۔۔انہوں نے کہنا ہے امی کیا قربانی دی آپ نے ہمارے لیے۔۔۔پہلے خود ان کی محتاج رہی پھر ہمیں کر دیا۔۔۔آج یہ چھوٹی ہیں۔۔۔کل جب اسکول جاۓ گی تب کیسے خرچہ پورا کریں گی۔۔۔اور پھر یہ کہیں گی اس اچھا تو ہمیں مار دیتی آپ ۔۔۔آپی اپنی اولاد کی خواہشوں کو حسرت مت بننے دینا۔۔۔سجل نے ہانیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں محبت سے پکڑا۔۔۔ ہانیہ جو کافی دیر سے خاموش سے اسکی بات سن رہی تھی۔۔پھر سمبھل کر بولی۔۔۔ میں نے چچی سے کہا تھا مجھے جاب کرنی ہے پر وہ نہیں مانی۔۔۔کہتی تم جاب کروگی تو تمہاری اولاد کو کون سمبھالے گا۔۔۔۔ آپی آپ لاہور چلی جاۓ۔۔۔نانو کے گھر۔۔۔ سجل کی بات پر ہانیہ ششدرره گئی۔۔۔ سجل تم ہوش میں تو ہو۔۔۔میں وہاں کبھی نہیں جاؤنگی۔۔۔ہانیہ نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔۔۔ آپی وہ وہاں نہیں ہیں۔۔۔میری نانو سے کچھ دن پہلے بات ہوئی تھیں۔۔۔وہ تو ماموں کے پاس گئی ہیں۔۔۔میں نے انھیں آپکا نہیں بتایا۔۔ایسے ہی وہ وہاں پریشان ہوتیں۔۔۔اسلیے آپ وہاں چلی جاۓ۔۔۔وہاں نوکر ہے وہ سمبھال لیا کریں گے۔۔۔لیکن آپ کو ایک مشورہ دوں۔۔۔ ہمم۔۔۔ہانیہ بس اسکی سن رہی تھی۔۔۔ آپ سی ایس ایس کے پیپرز دیں۔۔۔دیکھیں آپی یہ خواہش آپ کی نہیں شازل بھائی کی تھی۔۔۔لیکن اب آپ یہ اپنی خواہش بیٹیوں کے لیے پوری کریں۔۔۔ نہیں سجل میں یہ نہیں کر۔۔اس پہلے وہ مزید کچھ کہتی ہانیہ نے اسکی بات کاٹی۔۔۔ آپی اب آپ نے ان دونو کا سوچنا ہے۔۔۔صرف ان کے لیے۔۔۔سجل نے التجا کی۔۔۔ پر سجل میرے پاس پیسے نہیں ایڈمشن کے۔۔۔اور نا ہی اکیڈمی جوائن کرنے کے لیے۔۔۔ آپ وہ فکر مت کریں حسن کے کزن بتا رہے تھےکہ پانچ ماہ بعد پیپرز ہیں۔۔۔اور بکس تو آپ کے پاس پہلے ہی ہیں۔۔۔اور رہی بات خرچے کی تو وہ میں اٹھاؤنگی۔۔۔۔سجل نے یقین دہانی کرائی۔۔۔ نہیں سجل میں تم سے نہیں لے سکتی۔۔۔ آپی ادھار سمجھ کر رکھ لے۔۔۔جب اس قابل ہوجاۓ تو تب دے دیجیے گا۔۔۔سجل نے حل بتایا۔۔۔ جس پر ہانیہ خاموش ہوگئی۔۔۔ آپی آپ سوچ لے یہ زندگی گزارنی ہے یا اپنی بیٹیوں کے لیے کچھ کرنا ہے۔۔۔یہ کچھ سامان میں آپ کے لیے اور اپنی بیٹیوں کے لیے لائی تھی۔۔۔سجل اسکے ہاتھ میں بیگز دیتے ہوئے بولی۔۔۔ اسکی کیا ضرورت تھی۔۔۔ خالہ کی جان ہوتی ہیں یہ سجل نے ایمن ایمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔آپ سوچ بھی نہیں سکتی مجھے انہیں دیکھ کر کتنا دکھ ہوا ہے ۔۔۔آپ کل تیار رہنا میں آپ کو لینے آؤنگی۔۔۔پھر دونو بہنیں مل کرشوپنگ کرنے چلے گئے۔۔۔ابھی میں چلتی ہوں۔۔۔ایمن کو پیار کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ تم نے تو کچھ کھایا بھی نہیں اب ایسے جا رہی ہو۔۔۔ہانیہ اسکے ساتھ اٹھتے ہوۓ بولی۔۔۔ کل کھائیں گے نہ ہم چارو۔۔۔سجل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔ جس پر ہانیہ نے اسے گلے لگالیا۔۔۔سجل بہت شکریہ۔۔۔تم مجھ سے ملنے آئی۔۔۔مجھے تمہاری بہت ضرورت تھی۔۔۔ہانیہ پھر رو دی تھی۔۔۔ بہنوں کو شکریہ نہیں بلکہ ایک عد لگا کر حکم کرتے ہیں۔۔۔ اسکی بات پر ہانیہ مسکرا دی۔۔۔ یہ ہوئی نہ بات۔۔ایسے مسکراتی رہا کریں۔۔۔کل آؤنگی میری بچیوں کو تیار رکھنا۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے۔۔۔

   0
0 Comments